بجلی کا بل اور حکومت
یہ ۲۴ جولائی ۲۰۱۴ کا دن تھا میں جاب سے تھکا ہارا گھر پہنچا۔ فورن ہی میری بیگم نے اس ماہ کا بجلی کا بل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں اس کو نارمل روٹین سمجھ رہا تھا لیکن جب میں نے بل کی طرف دیکھا تو میرے ہوش اڑ گئے بجلی کا بل میری توقع سے کہی زیادہ تھا
میں واپڈا والوں کے آفس کی طرف بھاگاکہ بل ٹھیک کروائوں- لیکن لاحاصل۔ اْن کا کہنا تھا کہ ہم اس کو ٹھیک نہیں کر سکتے کیونکہ بجلی کے بل بڑھانے کا حکم حکومت کی طرف سے تھا۔ مجھے ان کی بات کا یقین نہ آیا بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔ حکومت تو ہم لوگوں کے فائدے کے لیے بنائی گئی ھے وہ ہمارے ساتھ ایسے نہیں کر سکتے
خیر مرتا کیا نہ کرتا بجلی کا بل جمع کرانا ہی پڑاکیونکہ جمع نہ کراتا تو اگلے ماہ اس سے بھی لمبا چوڑا بل آنا تھا ۔
کچھ دن بعد مجھے ایک نیوز نے بہت حیران کر دیا۔ اس خبر کے مطابق بجلی کا زائد بل حکومت کے کہنے پہ ہی بیھجاتھا۔ حکومت نے اپنا خسارہ پورا کرنا تھا اور اس کا بھوج ان غریب لوگوں پر ڈال دیا جو بیچارے پہلے ہی بجلی کا بل مشکل سے دے پاتے ہیں۔
حکومت روز بروز بجلی کے یونٹ پرائس میں اضافہ کر رہی ھے۔ یہی یونٹ جو کبھی ۳ روپے کا ہوتا تھا۔ اب اس کی قیمت ۱۷ روپے سے تجاوز کر گئی ھے۔خیر میں اپنے پوضوع سے تھوڑا سا ہٹ گیا۔ واپس اسی پہ آتا ہوں-
اسی ٹاپک کو لے کر حکومت کا موقف سامنے آیا کہ ہم نے جو ایکسٹرا چارج کیا ھےوہ واپس لیں گے-
ِمیں حکومت کے اس فیصلے پر بڑا خوش ہوا کہ چلو حکومت نے ایک بہتر اقدام کیا اس سلسلے میں۔ آخر سپتمبر کا بل آیا اور میں خوش تھا کہ اس بل میں وہ سارا بل واپس لے لیا جائے گا جو زیادہ چارج کیا ھے۔
جب بل آیا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی میرے بل میں سے بہت سا بل کم کیا گیا تھا۔ لیکن جب میں نے غور سے دوبارہ بل کو دیکھا تو غصے سے میرا برا حال ہو گیا۔ یہ کیا اس ماہ جو بل میں کمی کی گئی تھی وہ مجھے تین اقساط میں حکومت کو واپس کرنا تھا-
مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن افسوس بھی بہت ہوا کہ یہ ہمارے حکمران ہمیں کس کس طریقے سے لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ہمیں کیسے کیسے بہلاوے دیے جاتے ہیں۔ اور ہماری بےوقوف عوام ہر روز نئے نئے طریقوں سے لٹنے ک لیے تیار رہتی ہے۔
اس سارے سلسلے کو ختم کرنے کے لیے عوام کو ہی اٹھنا پڑے گا میرے جیسے آپ سب جیسے عام لوگوں کو جس کو پتا ہو کہ وہ کن حالات میں گزارا کر کہ اوپر آیا ہے۔جس کو پتاہو کہ عام آدمی کے کیا مسائل ہیں-
تب ہی طیب اردگان ہم میں پیدا ہو گا۔ جو اس نظا کو جڑوں سے اکھاڑے گااور ملکی ترقی ہو گی بھی تو عام آدمی کے لیے نا کہ گنے چنے چند لوگوں ک لیے۔
No comments:
Post a Comment